حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جامعہ عروۃ الوثقی اور تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان میں یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ ہمیں سعودی عرب اور ایران کی نیابتی جنگوں میں حصہ نہ لینے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے، خاص طور پر جب امام کعبہ اور بن سلمان نے اس جنگ کو حماس اور اسرائیل کا اندرونی مسئلہ قرار دیا ہے۔ چونکہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے، جبکہ ایران حماس کی حمایت کرتا ہے، اس تناظر میں پاکستانیوں کو یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ خاموشی کا مطلب غیر جانبدار رہنا ہے، جبکہ حقیقت میں یہ خاموشی اسرائیل کا سب سے بڑا سہارا اور خونریزی میں صہیونیوں کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے۔
علامہ سید جواد نقوی نے اس مجرمانہ خاموشی کو خیانت، غیر جانبداری کے پردے میں خذل کے داغ سے بچنے کی کوشش اور دینی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کے مظلوموں سے لاتعلقی اور انسانیت سوز جرائم پر آنکھیں بند کر لینا امت مسلمہ کی سب سے بڑی آفت اور گویا انکی موت کی مانند ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس خاموشی، خیانت اور خباثت کی وجہ مذہبی عناصر کا شدید بغض بھی ہے جو انہوں نے غزہ کی حمایت و نصرت کرنے والوں کے متعلق ظاہر کیا ہے اور اس ناطے مسلمانوں کو غزہ سے لاتعلق رہنے کا باقاعدہ سبق پڑھایا ہے۔
علامہ سید جواد نقوی نے آئی ایم ایف قرضے کے حصول کے لیے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانے اور فلسطین و غزہ کی حمایت کو جرم سمجھنے کی پالیسی کو بھی انتہائی شرمناک قرار دیا۔